ڈاکٹر من موہن سنگھ:سٹیٹس مین؍ماہر اقتصادیات
By
Khushwant Singh (Translated by Poonam Ayub)
ڈاکٹر من موہن سنگھ:سٹیٹس مین؍ماہر اقتصادیات
ڈاکٹر من موہن سنگھ:سٹیٹس مین؍ماہر اقتصادیات
ایک جانے مانے ماہر اقتصادیات اور سیاستدان نے ہندوستان کے ۱۳ویں وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ وہ جلد دنیا کے چوٹی کے اشخاص میں شمار ہونے لگے۔ اپنے سارے کیرئیر کے دوران انہوں نے انتھک محنت اور لگن اور غیر معمولی عاجزی کے ساتھ اپنے وطن کی خدمت کی۔ مجھے جب یہ موقع ملا کے ان کی زندگی کو مختصر بیان کروں اور جب میری ملاقات ان سے ہوئی تو مجھے ان کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو نزدیک سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات پرمیں نے اپنے بیٹے اور بیوی کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا اور غصے سے التجا کی کے خدا کے واسطے وقت پر تیار ہونا سیکھیں۔ہم انڈیا کے وزیراعظم کو ملنے جا رہے ہیں اور ہم کو وقت پر پہنچنا ہے۔
اس ملاقات کا انتظام ان کی بیٹی دمن سنگھ نے کیا جس سے میری جان پہچان ہو چکی تھی جب وہ اپنے والدین کی سوانح عمری لکھ رہی تھی۔
ایک روز ہوشیار پور کے بڑے ہال میں ایک بہت بڑے مجمعے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا میرے والد صاحب نے خود کبھی کوئی نوکری نہیں مانگی اور ہر ایک نوکری کی آفر انہیں کی گئی۔ اس کالج میں من موہن سنگھ خود بھی کچھ عرصہ تعلیم حاصل کر چکے تھے۔
Author and founder of The Global Sikh Trail, Khushwant Singh with the former Prime Minister of India, Dr. Manmohan Singhمیری دمن سے شناسائی اس مختصر سی سوانح عمری کا باعث بنی۔ اس کی اپنی کتاب کا عنوان Strictly Personal: Manmohan and Gursharanبنے پرسنل دمن کے ساتھ ملاقات جو خود بہت ملنسار تھی لیکن ان کے والد کی نہ صرف عاجزی بلکہ علم کے حصول کی ان بلندیوں کو چھو چکے تھے جو لفظوں بیان کرنا نا کافی ہیں اور تجربے کی بنا پر محسوس کیے جا سکتے ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر لفظوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں اور چونکہ مجھے اس تجربے کا شرف حاصل ہوا تو مجھے ان کامکمل علم ہوا۔
ہمارے سٹڈی روم میں داخل ہوتے ہی انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کیا پینا پسند کریں گے اور ہم نے اپنی اپنی پسند بتا دی۔ یہ ملاقات ایک ایسے سبق کا آغاز تھی جو میرے اکیس سالہ بیٹے کیلئے عاجزی کا یہ چہرہ عمر بھر کیلئے سبق تھا۔ اس کے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ ایک وزیراعظم اس کے چائے میں چینی گھولتے ہوئے اس سے اشوکا کالج کے Curriculum کے بارے میں پوچھے گا انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی اوپیندر بھی وہیں پڑھاتی ہے وہ ذرا سی دکیہ نوس (Old school) سمجھی جاتی ہیں۔ اس پر وہ خود ہی ہلکا سا مسکرائے اور پھر ہم نے ان کے پرانے دنوں کی طرف باتوں کا رخ موڑ دیا۔
وقت کا سفر
۲۶ ستمبر ۱۹۳۲ء کو برطانوی ہندوستان میں مغربی پنجاب کے گاہ کے نام سے جانا ایک گاؤں تھا جہاں انہوں نے جنم لیا تھا۔ ان کی زندگی کی کہانی شاید سب سے متاثر کرنے والی کہانیوں میں سے ایک ہے اور جو اس گلوبل سکھ ٹریل کی دیواروں پر ہمیشہ کیلئے نقش ہو جائے گی اور اس طرح جدید سکھ تاریخ میں بھی ایک اہم جز رہے گا۔
من موہن جب بالکل چھوٹے سے تھے تو ان کی والدہ امریت کور گزر گئی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے دادا اور دادی کے ساتھ رہنے لگے (سنت سنگھ اور جمنا دیوی) جہاں بہت سے اور بھی رشتہ دار موجود تھے۔ یہ اپنی دادی کے خاص طور پر قریب تھے اور دادی کے ساتھ سوتے اور اور ان کے ساتھ ہی صبح چار بجے جاگ جاتے اور اپنی دادی کے ہاتھ کے بنے ہوئے چھولے، مسی روٹی اور واڑیوں کا پلاؤ ابھی تک یاد تھا۔
ان کا پورا خاندان انتہائی مذہبی تھا اور ان کے نام کرن کیلئے ان کو حسن عبدال بھی لے گئے جہاں یہ تقریب پنجہ صاحب میں ہوئی اور یہ دوبارہ دو مرتبہ اس جگہ کا دورہ کر پائے سرکاری مہمان کے طورپر۔ ان کی زندگی اور پرورش سادگی سے ہوئی چونکہ ان کے والد گرمکھ سنگھ ایک کلرک کے طور پر ملازمت کرتے تھے ایک ایسی کمپنی میں جو افغانستان سے خشک میوہ جات درآمد کرتی تھی۔ اس وجہ سے وہ زیادہ وقت پشاور میں گزارتے تھے اور اس لیے ان کا آپسی میل ملاپ اس عرصہ میں بہت محدود رہا۔
ان کے دادا اور دادی دونوں غیر تعلیم یافتہ تھے اور زیادہ زرعی زمین بھی نہ تھی۔ اخراجات پورا کرنے کیلئے ان کے دادا چھوٹے موٹے کام اپنے ذمہ لے لیتے تھے اور جب ان کا بیٹا گرمکھ سنگھ ان کو من موہن سنگھ کی پرورش کیلئے پیسے بھیجتے تو وہ کچھ دن آرام کر لیتے۔
جب من موہن سنگھ چار سال کے تھے تو انہوں نے گاؤں کے گرد وارے میں جا کر گرمکُھی سیکھنا شروع کر دی اور ایک سال بعد انہوں نے گاؤں کے اردو سکول میں داخلہ لے لیا۔ (اپریل ۱۹۳۷ء) اور یہی وجہ تھی کے جب وہ بعد میں اعلیٰ تعلیم کیلئے باہر گئے تو انگریزی سیکھی۔ وزیراعظم بن گئے تو اکثر اپنے تقاریر وہ اردو میں یا گرمکھی میں لکھتے تھے۔
جس گاؤں میں وہ پلے بڑھے وہاں کا ماحول بہت دوستانہ تھا اور یہاں اساتذہ اور پڑوسی سارے تہوار مل جل کر مناتے تھے۔ دوستوں کے ساتھ جب وہ کبڈی، بنٹے یا گلی ڈنڈا کھیلتے تو وہ سب کو اپنے والد کے بھیجے ہوئے کشمش بادام کھلاتے تھے۔
جب انہوں نے چوتھی جماعت پاس کر لی تو آگے پڑھائی کیلئے وہ اپنے چچا گوپال سنگھ کے پاس چکوال منتقل ہو گئے اور یہاں کے خالصہ ہائی اسکول میں داخل ہو گئے۔ دادا دادی یاد تو بہت آتے تھے لیکن ان کو یہاں کا اسکول بھی پسند آ گیا اور باقی تمام پڑھائی کے دوران ان کو وظیفہ ملتا رہا اور اسی طرح انہوں نے PHDبھی مکمل کرلی جو کسی بھی عام طالب علم کیلئے ایک عجوبہ ہے۔ پڑھائی میں محنت اور لگن کے باوجود وہ کبھی کبھار شرارتیں بھی کر لیتے تھے۔ ایک دفعہ خالہ نے بازار سے دہی لانے کو کہا تو انہوں نے اوپر والی تہہ سے بلائی چاٹ لی۔ ان کو جب گاہ کی یاد زیادہ ستانے لگی تو انہوں نے اپنے کزن کے بچائے ہوئے چند روپے نکال لئے اور اکیلے ہی سفر طے کر کے اپنے گاؤں گاہ پہنچ گئے۔
اس گاؤں کی خوبصورتی اور سادگی بہت سالوں بعدآبی رنگوں water colourسے نقش کی سابقہ صدر انجہانی پرویز مشرف نے انہیں تحفہ کے طور پر پیش کی تھی۔