ڈاکٹر من موہن سنگھ:سٹیٹس مین؍ماہر اقتصادیات

By
Khushwant Singh (Translated by Poonam Ayub)

ڈاکٹر من موہن سنگھ:سٹیٹس مین؍ماہر اقتصادیات

کمیرج کیلئے بحری سفرکا تجربہ

 اب زندگی نے کروٹ بدلی اور انہیں سمندری سفر کا سامنا کرنا تھا اور ساتھ ہی مالی مشکلات اور انجانے culturalحالت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ ۱۹۵۵ء امنگوں اور ہچکچاہٹ دونوں کے ساتھ SS stratheden نامی ایک شاندار بحری جہاز پر سوار ہوئے یہ ان کا پہلا تجربہ تھا جہاں انہوں نے اتنے آرام و آسائش کا سامنا ہوا۔ اس جہاز میں ہزار سے زیادہ سونے کیلئے کمرے تھے، ایک وسیع کھانے کا کمرہ اور ایک تیرنے کیلئے سومنگ پول بھی موجود تھا۔

       اس سفر کے دوران انہوں نے اپنے آئندہ کے استاد CW Gillibrandکا ایک خط ارسال کیا Tilburyبندرگاہ پر سفر کا اختتام ہوا اور سفر کے دوران ان کا جہاز ادن، پورٹ سعید،جبرالٹر اور مارسلیز (فرانس)پر ٹھہرا اوران کویہ جگہیں دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کو اپنے ہوشیار پور کے استاد جے دیو ورما نے welcome کیا ۔ لندن کی دو دن سیر کرائی جن کے بعد وہ ٹرین سے کمیرج کیلئے روانہ ہو گئے۔

       اور اب ان کی ذہنی نشونمااصلی معنوں میں شروع ہوئی۔ یہاں وہ کھل کر اپنے سوچ کا اظہار کر سکتے تھے اور یہاں پر گہری دوستیاں قائم کیں ان کو یہاں بھی چوٹی کے اساتذہ کا تجربہ ہوا جنہوں نے ان کی احترام سے لبریز رویہ کو بہت پسند کیا اور ان کے لگن سے پڑھنے کے طریقے کو بھی۔ معیشت کی تعلیم کے دوران انہوں نے (Keynes) کو اول ترجیح دی لیکن ساتھ ہی سردینس رابڑسن اور جون رابنسن کے سوچ کے حامی بھی تھے انہوں نے سوشل برابری کے ساتھ capitalism کا مطالعہ بھی کیا اور ان دونوں پہلوؤں کو آخر عمر تک اپنے نظریہ میں شامل رکھا۔

       اپنے اعلیٰ اور مشکل تعلیم میں محو رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے دوست مدن لال سے پورا رابطہ رکھا بزریعہ ڈاک ۔ایک وقت تھا جب ان کو مدن لال سے پیسے ادھار پر لینے پڑے۔ پھر ۱۹۵۶ء ان کے والد نے ان کی دادی کے گزر جانے کا لکھا جو سن کر انہیں بہت صدمہ ہوا اور نہ پُر ہونے والا خلا بھی۔

       اکنامکس کے ٹراپوس (Tripos) میں پھر انہوں نے ٹاپ کیا اور کچھ سالوں بعد ان کی یونیورسٹی نے انہیں ایک اعزازی قانون کی ڈگری بھی دی۔ اب بھی ان کی عاجزی والا رویہ تھم نہ سکا۔ اپنے دوست سے پوچھا جب انہوں نے Triposمیں ٹاپ کیا کہ کیا میں واقعی اتنا ہوشیار ہوں یا یہ سب قسمت کا کھیل ہے انہیں بہت سے اسناد سے بھی نوازا گیا اور ان کا مضمون جو عالمی انوسمنٹ اور مادنی ترقی کو پڑھا جس کیلئے انہیں(Adam Smith)پرائز ملا۔

       اس کے سارے پروفیسر اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے جب کہ ان کی عاجزی کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور یہ سب کو حیران کر دیتی کہ یہ آدمی کس مہارت سے حالات کو سمجھ اور بھانپ لیتا تھا۔ ایک پروفیسررابن میتھیونے یہ بات کہہ دی کہ اگر میں ہندوستان کیلئے اکنامک advisor کی تلاش میں ہوتا تو انہی کو اپوائنٹ کرنے کی سفارش کر دیتا۔

        ۲۵ سال کے من موہن سنگھ نے تقریباً دنیا کو اپنے قدموں میں پایا۔ نکلوس کالڈر ان کے ایک استاد تھے جنہوں نے ہندوستان کے وزیر خزانہ کرشنا ماچاری کو لکھا کہہ اگر کوئی خزانے کے محکمے میں کام کرنے کیلئے مل سکتا ہے تو من موہن سے بہتر نہیں مل سکتا۔ ان کے اس کے بعد آفر بھی ہوئی سینئر ریسرچ آفیسر کی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی ان کو بھرتی کرنے کا اظہار کیا۔ ایک اور دعوت جو ان کو ملی وہ دہلی سکول آف اکنامکس سے ملی کے وہ ان کے کالج میں بطور لیکچرر آ جائیں۔

       ان سب کے علاوہ ان کو وظیفہ دیا گیا اور تعلیم مکمل کرنے کیلے نفیلڈ کالج آکسفورڈ سے دعوت بھی دی گئی لیکن وہ فوری طور پر اس دعوت کا فائدہ نہ لے سکے۔ پہلی رکاوٹ یہ تھی کہ پنجاب یونیورسٹی نے جو ان سے بانڈ ختم کرنے سے پہلے وظیفہ کے دی گئی رقم سود سمیت لوٹا دی جائے اس کے علاوہ ان کے والد شدید بیمار ہو گئے اور ان کو وطن واپس آنا پڑا۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کا ارادہ ان کا بھگتنا تھا اور واپسی کا منصوبہ کئی عرصے بعد تکمیل کو پہنچا۔

       اس مرحلہ پہ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور پنجاب یونیورسٹی ہوشیارپور میں انہوں نے ۵۰۰ روپے ماہوار پر سینئر لیکچرر کے ملازمت شروع کی۔

       جہاں تک ان کی استواجی زندگی کا سوال تھا تو وہ شاید یہ بات کبھی خود افشاں نہ کرتے لیکن ان کی اہلیہ گرشرن نے بہت مسرت سے اس بات کا انکشاف کیا کہ جب وہ پہلی بار ملے تو ان کی شرمیلی اور سادہ طبیعت پر دل فرفتہ ہو گئے اور ان کا بندھن کا رشتہ ان کے ملنے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہی پختہ شکل اختیار کر گیا۔ گرشرن ملنسار اور ہنس مکھ عادتیں اور ڈاکٹر سنگھ کے پر سکون مزاج کی وجہ سے ایک بے انتہا خوبصورت ہم آہنگی اور توازن برقرار رکھتی تھی۔ گرشرن سے ہم کو گھل ملنے کا موقع ملا۔ میری اہلیہ بر ملا سے وہ خوشگوار انداز میں گپ شپ کرتی رہیں۔

       ہم کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ سنگھ پریوار ہمارے پڑوسی بھی ہیں چندی گڑھ کے خوشگوار Sector-II کے Housing Colonyمیں۔

       گرشرن کے والد چھتر سنگھ نے بھی ۱۹۴۷ء سرحدوں کے اوتھل پوتھل کا سامنا کیا اور نوشہرہ سے اپنی فیملی کو سرحد پار شفٹ کرنا پڑا۔ خوش قسمتی سے انہیں بر ما شیل کمپنی میں ملازمت مل گئی جن کا اب بھارت پٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ نام ہے۔ اب ان کا خاندان امرتسر میں آباد ہو گیا۔ گرشرن کی پیدائش تقسیم کے کچھ سال پہلے (۱۹۳۷ء) میں جلندر میں ہوئی ان کو پیار سے شانی کہتے تھے اور انہوں نے راولپنڈی میں ہی اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس سے پہلے فیملی چمن (بلوچستان) اور کوہاٹ (KPK)میں بھی قیام کر چکی تھی اور بلاآخر امبالا میں اپنا گھر پا لیا۔ انہوں نے تعلیم کے دوران سائنس، موسیقی اور انگلش کو ترجیح دی اور انہیں میں ہی گریجویشن مکمل کی۔ ان کا ایک اور پہلو جس نے ان کو ہر دلعزیز کر دیا وہ تھا ان کی مدھر آواز اور موسیقی سے ان کا گہرا لگاؤ۔ ان کی فیملی میں مذہبی روایت کا بڑا ہاتھ تھا اور چھوٹی سی عمر میں انہوں نے شبدگانے شروع کر دیئے۔ انہوں نے اس میں تعلیم یاریاز جاری نہ رکھی لیکن ان کا جذبہ موسیقی کیلئے بہت سالوں تک قائم رہا۔ اس کو بھانپتے ہوئے ان کے شوہر نے انہیں ایکmorphy ریڈیو خرید دیا جس سے وہ اپنے پسندیدہ پروگراموں کا لطف اٹھا سکیں جب وہ چندی گڑھ میں رہنے لگے۔ ان کی ایک سالہ منگنی کے دوران وہ اکثر ان سے ملتے ان کے گھر جاتے اور ان کی فیملی کے ساتھ کھانا کھاتے یا ان کو فلموں کیلئے لے جاتے۔ ان کی شادی کی تقریب بہت سادہ تھی جس میں ۱۵۰ بہت قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کی شرکت تھی۔

       وقت گزرنے کے ساتھ ان کا آپسی بندھن مضبوط ہوتا گیا اور یہ ان کے ایک جیسے خیالات اور مشترکہ values کی وجہ سے ہوا۔ دونوں کو سادہ زندگی پسند تھی لیکن دونوں اچھی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے . مشترکہ دوست بنائے اور لیکن انہوں نے کبھی مذہبی بحث میں حصہ لینے کو ترجیح نہیں دی۔ سب سے اچھا پہلو ان کی زندگی کا یہ تھا کہ اپنی تینوں بیٹیوں اُپندر، دمن اور امرت میں کتابیں پڑھنے کا ایک جذبہ اور لگن پیدا کی۔

Government College for Girls, Patiala, 1955: Gursharan in row 1, second from right. To her right is Miss Malhotra, later Padma Verma Government College for Girls, Patiala, 1955: Gursharan in row 1, second from right. To her right is Miss Malhotra, later Padma Verma

       ہماری گفتگو اور خوش گپیاں جاری تو گرشرن نے بہت ملنساری اور پیار سے ہم کو اور چائے پینے کی پیشکش کی جو ہم نے خوشی سے قبول کی اور ہم چاہتے تھے (دل کی گہرائیوں)کے ہماری یہ خاص اور نایاب ملاقات کبھی اختتام کو نہ پہنچ پائے۔

       آخر کار اس خوش باش جوڑی نے چندی گڑھ کا ہی انتخاب کیا اور اپنے لئے یہاں ایک ذاتی گھر خرید لیا یہ یونیورسٹی کیمپس کے نزدیک تھا اور وہ اکثر پیدل یا سائیکل کا استعمال کر کے کام پر چلے جاتے۔ زندگی کا یہ مرحلہ انہوں نے بھر پور گرم جوشی سے اور مہمان نوازی سے طے کئے اور بہت سے دوست بنائے اور سب کیلئے اپنے دروازے ہمیشہ کُھلے رکھے۔ گھر انہوں نے چندی گڑھ میں اس لیے خریدا کے retirementکے بعد یہاں رہ سکیں لیکن زندگی نے ابھی بہت سے منصوبے ان کیلئے پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔

       جب وہ دن بھر اپنے کام میں مصروف رہتے تو گرشرن گھر کے معملات کی دیکھ بھال کرتیں اور ایک خاندان کے بڑے ہونے کو بھی کبھی محسوس نہیں کیا وہ ان کیلئے رنگ برنگی ساڑھیا ں تحفے میں لاتے اور ان دونوں کو خوش باش لوگوں سے گھلنے ملنے کا بہت شوق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ گرشرن کو آکسفورڈ میں داخلہ دلائیں لیکن ان کو خود اعلیٰ تعلیم یا کسی careerکی کمی محسوس نہیں ہوئی۔

       ان کی پہلی بچی اُپندر امرتسر کے ایک سرکاری ہسپتال میں پیدا ہوئی۔ اب وہ باپ بن چکے تھے اور ان کو بچے کے ساتھ کھیلنا یا اس کی پرورش کے بارے میں کتابیں پڑھنے سے بہت خوشی محسوس ہوتی تھی اور انہوں نے اپنے لئے Dr. Spockکی ایک کاپی خرید رکھی تھی۔

       جب بچیاں بڑی اور سمجھدار ہونے لگیں تو ان کی کوشش ہوتی کہ ان کی زندگی میں زیادہ دخل نہ دیں حالانکہ وہ نوجوان نسل کو مشورے دینے میں اچھے خاصے ماہر تھے۔ کبھی اگر ان کو مضمون جو کالج میں وہ لیتے اس میں اختلاف محسوس ہوتا لیکن خاموش رہتے۔ لیکن ان کی بیٹیوں نے فیملی کی وراثت کو جس میں تعلیم دینا اور دوسروں کی خدمت کرنے کو پوری طرح آگے بڑھایا۔

       ان کے اپنے رشتے میں باپ بچوں والی ہم آہنگی نہیں تھی لیکن باہمی احترام اور محبت سے سرشار تھی۔ دمن نے بہت پیار سے اپنے والد کی نظم و ضبط رکھنے والی اور بے انتہا مصروف انسان کے طور پر ہمیشہ پایا لیکن ایک مزاحیہ عادت کا بھی ذکر کیا اور وہ تھی ان کی گاڑی بہت تیز رفتار سے چلانے کی عادت اور چلتے بھی تیز رفتار سے تھے۔ لیکن ان کی ایک بہت بڑی خاصیت یہ تھی کے جب لوگوں نے بڑی اور پر تعش گاڑیاں استعمال کرنی شروع کر دیں یہ پھر بھی اپنی چھوٹی سی Maruti 800چلاتے اور اس کی وجہ سے لوگ ان سے بہت متاثر ہوتے۔

       اور ان کا ایک اور اصول تھا کے فیملی والوں کو بہت خیال کرنا پڑتا اور وہ تھا سرکاری وسائل کا غلط استعمال جس میں شامل تھا ٹیلی فون کا استعمال، سرکاری گاڑی کا ذاتی نوعیت کے کاموں کیلئے استعمال کرنا اور ان کی آمدنی کے اندر محدود رکھنا ۔

       جس دوران وہ Reserve Bank of India کے گورنر کے طور پرappoint ہوئے اور بمبئی میں انہیں ایک بڑا سرکاری گھر رہنے کو ملا تو سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کے وہاں کے سارے سامان اور قدیم چیزوں کی فہرست تیار کروائی جس سے ان کی احتیاط اور نفاست دونوں کی عکاسی ہوتی تھی۔ ان کے خاندان کو اکٹھے وقت بیتانے کے بہت کم مواقع ملے ان کا زیادہ یاد گار فیملی سفر ۱۹۷۴ء میں تھا جب وہ نینیتال گئے تھے۔ وہ کبھی مل کر کتابوں کی تلاش بھی کرنے کیلئے کینوٹ پیلس کی دکانیں چھانتے جو ان دنوں مشہور تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دریا گنج جا کر مغلئی کھانے کا لطف اٹھاتے یا پھر بنگالی مارکیٹ کی کئی قسم کی چاٹ اور کملانگر جا کر کرشنا سیوٹیس کی مٹھائی کھاتے اور خرید کے گھر بھی لاتے۔

       دمن ان کی مزاحیہ پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بتانے لگیں کے ان کو لوگوں کو nick nameدینے کا بہت شوق تھا اور ایک چچا تھے جیول بابا اور دوسرے تھے جان بابا۔ بیٹی امرت کو وہ لٹل (Little) رام اور دمن کو لٹل Little نون اور بیچارے کتے پینو کو وہ نٹ بابا کہتے ،ان کی شرارتی طبیعت کی وجہ سے اور وہ ان سے بہت لطف اندوز ہوتے جبکہ گرشرن پریشان رہتیں۔

       یہ دونوں بہت مذہبی سوچ اور طور طریقوں کو بہت اہمیت نہیں دیتے لیکن ان کے روایات کی عزت کرنا اہم تھا۔ جب بڑی بیٹی نے اپنی برادری سے باہر شادی کرنے کا انتخاب کیا تو یہ شروع میں ان کو ناگوار گزرا لیکن کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے انسان کی نیکی اور روح کی اچھائی کو قبول کیا۔ اس کے بعد مزید فیصلے جو بیٹیوں نے کئے وہ ان کیلئے قبول کرنا آسان ہو گئے اور سب دامادوں کے ساتھ خوشگوار اور قریبی تعلقات قائم رہے۔ اب جب کہ وہ نانا اور نانی بن چکے تھے اور ان کی زندگی خوشیوں کا پیکر نظرآتی تھی اور ایک نئے dimension میں داخل ہو چکی تھی۔

با معنی اور با مقصد راستہ



Khushwant Singh (Translated by Poonam Ayub)
Translated by: Tahmina (Poonam) Aziz Ayub saw her schooling years in Karachi, Islamabad, and Rome. She holds a postgraduate degree in Social Anthropology from the University of Sussex, UK. Her professional focus was on Gender and Development, and she remained involved with national NGOs and the United Nations for over 15 years. She married a diplomat and lived in New York, Rome, Cairo, and The Hague. In 2019, she co-authored a biography on the unusual life journey of Begum Raana Liaquat Ali Khan. The biography was launched at the prestigious Jaipur Literature Festival. She has also authored “The Forgotten Legacies of Rai Bahadur Sir Ganga Ram.” Currently, she resides in Islamabad with her husband, Arif Ayub, and son, Shehryar.